Breaking News >> News >> Independent Urdu


پشاور مسجد دھماکہ: 63 زندگیاں، 36 کہانیاں


Link [2022-03-08 15:33:51]



پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کے وسط میں واقع کوچہ رسالدار کی جامعہ مسجد میں چار مارچ کو ہونے والے خود کش دھماکے میں ہسپتال انتظامیہ کے مطابق کم از کم 63 افراد جان سے گئے تھے۔

صوبائی دارالحکومت کا گنجان آباد اور مصروف قدیم حصہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ حملہ آوروں کے لیے آسان ہدف تھا۔ یہ علاقہ تاریخی قصہ خوانی بازار کے قریب واقع ہے جہاں ماضی میں تاجر اور مسافر قہوہ خانوں میں بیٹھ کر ادھر ادھر کے قصے سنایا کرتے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے بھی خودکش دھماکے میں جان سے جانے والوں کے لواحقین سے بات کی اور ان کی زندگی کی مختصر کہانیاں اکٹھی کی ہیں۔

ان افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق پشاور جبکہ بعض کا قبائلی ضلع کرم کے علاقے پاڑا چنار سے تھا۔

1۔ مظہر علی کیانی

Mazhar Ali Kiyani.jpg

پشاور میں یکہ توت علاقے سے تعلق رکھنے والے مظہر علی کیانی محکمہ تعلیم میں گریڈ 18 کے ملازم تھے۔ ان کی عمر تقریباً 50 سال تھی اور جس مسجد میں دھماکہ ہوا وہ اس کی کمیٹی کے متحرک اراکین میں شامل تھے۔ مظہر کیانی کے بیٹے نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ان کے والد کو چند مہینے پہلے ایک فہرست موصول ہوئی تھی جس میں نشانہ بنائے جانے والوں کے نام تھے اور ان کے والد کا نام بھی اس میں شامل تھا۔

2۔ میر افضال حسین

Afzal Hussain.jpg

میر افضال کا تعلق کوچہ رسالدار سے تھا اور ان کا گھر مسجد کے قریب ہی تھا۔ میر افضال خیبر بازار کے ایک نجی بینک میں ملازم تھے اور چند روز قبل ان کی ترقی بھی ہوئی تھی۔ میر افضال کے چچا وسیم حیدر نے بتایا کہ ان کی شادی ہوچکی تھی لیکن ان کے بچے نہیں تھے۔

3۔ انیق حسین

Aneeq Hussain.jpg

انیق حسین بھی کوچہ رسالدار میں رہتے تھے اور افضال حسین کے قریبی رشتہ دار اور دوست تھے۔ انیق کے چچا وسیم حیدرکے مطابق: ’افضال اور انیق جب زندہ تھے، تو بھی ہمیشہ ایک ساتھ ہوتے تھے اور ایک ساتھ ہی اس دنیا سے چلے گئے۔‘

وسیم حیدر کے مطابق یہ دونوں ہمیشہ مسجد کی بالائی منزل میں نماز پڑھتے تھے لیکن دھماکے کے دن انیق کے گھٹنے میں درد تھا تو دونوں نماز ادا کرنے کے لیے نچلی منزل پر ہی رک گئے تھے۔

4۔ میر ناصر علی

Mir Nasir Ali.jpg میر ناصر علی کا تعلق بھی کوچہ رسالدار سے تھا اور وہ مسجد کمیٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ وہ بینک میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ میر ناصر کے بیٹے ڈاکٹر علی رضا نے بتایا کہ ان کے والد مسجد کمیٹی کے جنرل سیکریٹری اور امامیہ جرگے کے سرگرم رکن تھے۔

5۔ جمیل خان

Jameel Khan.jpg

اس مسجد کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار جمیل خان بھی دھماکے کی زد میں آئے۔ پولیس کے مطابق خود کش حملہ آور نے پہلے جمیل پر داخلی دروازے پر فائرنگ کی او ر بعد میں وہ مسجد میں داخل ہوا۔

مرحوم جمیل کا تعلق پشاور کے علاقے پھندو روڈ سے تھا اور انہوں نے سوگواران میں تین بچے چھوڑے ہیں۔ جمیل کے گھر تقریباً ہفتہ قبل بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے ماموں کے مطابق ابھی تک انہوں نے اپنی بیٹی کا نام بھی نہیں رکھا تھا کیوں کہ وہ اپنے والدین سےکہتے تھے کہ ’آپ نام رکھیں‘ اور والدین انہیں کہتے کہ ’آپ خود نام رکھیں۔‘

6۔ محمد علی میر

Mir Ali Mohammad.jpg

محمد علی کا تعلق بھی کوچہ رسالدار سے تھا اور وہ سابق بینکر تھے۔ محمد علی کے بھتیجے ڈاکٹر علی ضا نے بتایا کہ ان کے چچا مسجد کمیٹی کے رکن تھے اور زیادہ تر جمعے کی نماز اسی مسجد میں ادا کرتے تھے۔

7۔ سید انیس الحسنین

Anees-ul-Hasnain.jpg

سید انیس الحسنین مسجد کمیٹی کے فنانس سیکریٹری تھے اور مسجد کے تمام مالی امور ان کی ذمہ داری تھی۔ مقامی صحافی شبیر شاہ کے مطابق انیس اہل تشیع کے سرکردہ لوگوں میں شامل تھے۔

8۔ منور حسین

منور حسین محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا کے ریٹائرڈ ملازم تھے اور ان کا تعلق کوچہ رسالدار سے تھا۔ دھماکے کے روز وہ اپنے بھتیجےکے ساتھ نماز جمعہ پڑھنے مسجد گئے تھے اور دونوں دھماکے کا نشانہ بنے۔

9۔ مولانا ارشاد خلیلی

Irshad Khalili.jpg

مولانا ارشاد جامعہ مسجد کے خطیب تھے اور ان کا تعلق ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا۔ مولانا نے سوگوران میں چار بیٹیاں اور دوبیٹے چھوڑے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور نے مسجد میں داخل ہو کر پہلے خطیب پر گولی چلائی تھی۔

10۔ فہیم عباس

Faheem Abbas.jpg

فہیم عباس مسجد دھماکے کے سب سے کم عمر متاثرین میں سے ہیں جو ابھی سات برس کے تھے کہ اس دنیا سے چلے گئے۔ فہیم عباس اپنے والد عقیق حسین کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھنے مسجد گئے تھے کہ والد سمیت دھماکے کا شکار ہوئے۔ فہیم کو طوری قبرستان، پاڑہ چنار میں سپرد خاک کیا گیا۔

11۔ مرزا حسنین

مسجد دھماکے میں جان سے جانے والے مرزا حسنین کی عمر 16 برس تھی اور وہ کوچہ رسالدار کے رہائشی تھے۔

12۔  فاتح علی خان

Fateh Ali Khan.jpg

دھماکے میں چل بسنے والے فاتح علی خان کا تعلق کوہاٹی گیٹ سے تھا۔

13۔ عامر علی

دھماکے میں جان سے جانے والوں میں 52 سالہ عامر علی بھی شامل ہیں، جن کا تعلق نمک منڈی، پشاور سے تھا۔

14۔ علی مرتضیٰ

Ali Murtaza.jpg علی مرتضیٰ کا تعلق سکردو سے تھا۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے جیالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہ سکردو کی کاروباری شخصیت زر مست خان کے بیٹے تھے۔ علی پشاور میں قیمتی پتھروں کا کاروبار کرتے تھے اور جمعے کی نماز پڑھنے کے لیے نمک منڈی سے کوچہ رسالدار گئے تھے۔

15۔ محمد آصف

محمد آصف قوت گویائی و سماعت سے محروم تھے۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھنے گئے تھے لیکن ان کے بھائی دوسری منزل پر نماز پڑھنے کی وجہ سے بچ گئے۔ مرحوم آصف کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ ان کے والد کچھ عرصہ قبل گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوکر چل بسے تھے۔ آصف ڈینز ٹریڈ سینٹر، پشاور میں بطور آفس بوائے کام کرتے تھے۔

16۔ سید مسرت رضا 

سید مسرت رضا کا تعلق پشاور کے سول کوارٹرز سے تھا۔ مسرت کے بیٹے حسیب رضا نے بتایاکہ وہ اپنے والد کے ساتھ صدر بازار گئے تھے لیکن والد نے بتایا کہ وہ جمعہ پڑھنے کوچہ رسالدار مسجد جائیں گے اور بعد میں  انہیں فون پر اطلاع ملی کہ مسجد میں دھماکہ ہوا ہے۔ 

17۔ مجاہد علی اخونزادہ

Mujahid Ali Akhundzada.jpg

مجاہد علی اخونزادہ اہل تشیع کے سرگرم اور متحرک اراکین میں شامل تھے۔ مجاہد اخونزادہ پر چند سال پہلے بھی قاتلانہ حملہ ہوا تھا لیکن وہ اس میں بچ گئے تھے۔ مجاہد علی شعیہ علما کونسل کے سرگرم رکن بھی تھے۔ مجاہد علی اخونزادہ معروف ذاکربھی تھے۔

18۔ مظہر علی اخونزادہ

Mazhar Ali Akhundzada.jpg

مظہر علی اخونزادہ کا تعلق بھی مجاہد علی کے خاندان سے تھا اور پشاور کے اہل تشیع مسلک کے سرگردہ رہنماؤں میں شامل تھے۔ مظہر شعیہ علما کونسل کے رکن بھی تھے۔ مظہر علی اہل تشیع کے محفلوں میں بطور ذاکر بھی شریک ہوتے تھے اور امامیہ جرگہ کے سرکردہ رکن تھے۔

19۔ حسن علی اخونزادہ

Hassan Ali Akhundzada.jpg

حسن علی اخونزادہ مظہر اخونزادہ اور مجاہد علی کے خاندان سے تھے۔ ایک ہی خاندان کے یہ تینوں افراد اس دھماکے میں نشانہ بنے۔ حسن اخونزادہ ذاکر بھی تھے اور اہل تشیع کی مختلف تقاریب اور جلوسوں میں شرکت کرتے  تھے۔

20۔ علی رضا

Ali Raza.jpg

علی رضا کا تعلق پشاور کے کوچہ رسالدار سے تھا اور وہ پیشے کے لحاظ سے بینکر تھے۔ علی رضا کے بھتیجے ڈاکٹر علی نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ علی رضا بینک سے ریٹائرڈ تھے اور زیادہ تر اسی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے۔

21۔ سید طیب رضا شاہ

Tayyab Raza Shah.jpg

ان کا تعلق پشاور کے علاقے ڈھکی نعلبندی سے تھا جہاں اے این پی کے رہنما بشیر بلور پر ایک جلسے کے دوران حملہ ہوا تھا جس میں وہ زخمی ہوئے تھے مگر چار افراد جان سے گئے تھے۔

22۔ شیر علی میر(ماما شیر علی)

Shair Ali.jpg

شیر علی ماما شیر کے نام سے مشہور تھے اور ان کا تعلق پشاور کے علاقے مروی ہا سے تھا۔ 

23۔ کانسٹیبل اختر حسین

Akhtar Hussain.jpg

اختر حسین محکمہ پولیس میں بطور کمپیوٹر آپریٹر کام کرتے تھے اور انہوں نے کمپیوٹر سائنس میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کا تعلق ضلع کرم سے تھا۔ پولیس حکام کے مطابق اختر حسین کی وہاں کوئی ڈیوٹی نہیں تھی بلکہ وہ نماز پڑھنے مسجد گئے تھے۔

24۔ سردار خورشید الحسن

sardar Khursheedul Hassan.jpg

ان کا تعلق بھی پشاور سے تھا اور ان کی عمر60 برس تھی۔

25۔ سید انیس آغا جعفری

Anees Agha Jaffery.jpg

سید انیس کا تعلق پشاور سے تعلق تھے اور امامیہ جرگے کے اہم رہنما تھے۔ ان کی عمر 62 برس تھی۔ 

26۔ حسن علی

Hassan Ali.jpg

حسن کا تعلق بھی پشاور کے علاقے سے تھا اور گھر کے واحد کفیل تھے۔ وہ پشاور ہائی کورٹ میں بطور کلرک کام کرتے تھے۔ حسن علی کے دوست رضا شگری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حسن خاندان کے واحد کفیل تھے اور سوگوارن میں تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حسن نہایت ہنس مکھ اور نرم مزاج انسان تھے۔

27۔ الیاس حسین

Ilyas Hussain.jpg

الیاس حسین کا تعلق کوچہ رسالدار سے تھا اور بینک میں بطور سکیورٹی گارڈ کام کرتے تھے لیکن کچھ عرصہ قبل ریٹار ہوگئے تھے۔ الیاس حسین کے بیٹے نگاہ حسین کے مطابق ان کے والد کی عمر 80 سال کے لگ بھگ تھی اور معمول کی طرح دھماکے کے دن بھی جمعہ پڑھنے گئے تھے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔

28۔ باز گل

Baaz Gull.jpg

باز گل کا تعلق پشاور کے علاقے گلبرگ سے تھا اور وہ پاکستان ایئر فورس سے بطور چیف وارنٹ آفیسر ریٹائر ہوئے تھے۔

29۔ جابر حسین بنگش

Jabir Hussain Bangash.jpg

جابر حسین بنگش کا تعلق پاڑہ چنار سے تھا اور وہ پشاور سول سیکریٹریٹ میں کلاس فور ملازم تھے۔ جابر بنگش سول فور ایسوسی ایشن کے سابق صدر بھی رہے چکے ہیں۔ جابر حسین کلاس فور ملازمین کے حقوق کے لیے بہت سرگرم تھے اور یونین کی پلیٹ فارم سے ان کی حقوق کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔ 

30۔ مظاہر حسین بنگش

Muzahir Hussain Bangash.jpg

مظاہر حسین بنگش کا تعلق بھی پاڑہ چنار سے تھا اور وہ بھی سول سیکرٹریٹ کے ملازم تھے۔

31۔ منتظر مہدی

Muntazir Mehdi.jpg

منتظر مہدی دھماکے کے متاثرین کے کم عمر متاثرین میں شامل ہیں۔ ان کا تعلق پشاور کے علاقے ڈھکی نعلبندی سے تھا اور ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ منتظر کے والد حسنین مہدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حسنین مہندی اہنے ماموں کے ساتھ جمعہ پڑھنے گئے تھے جہاں دھماکے کا نشانہ بنے۔ حسنین مہندی نے بتایا کہ منتظر دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔

32۔ سید اکبر علی شاہ رضوی

سید اکبر علی شاہ امام بارگاہ آغا سیفی شاہ کے متولی تھے اور پشاور کے محلہ داد آسیہ شاہ کے رہائشی تھے۔

33۔ سردار زاہد علی

sardar Zahid Ali.jpg

34۔ پروفیسر(ریٹائرڈ) ظفر علی

zafar Ali.jpg

پروفیسر ظفر علی 1945 میں لوئر کرم کے علاقے علیزئی میں پیدا ہوئے تھے اور پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر تھے۔ مقامی صحافی نبی جان کے اورکزئی کے مطابق پروفیسر ظفر گورنمنٹ ڈگری کالج پاڑا چنار کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نبی جان کے مطابق وہ پشاور میں اپنے بیٹوں کے ساتھ رہتے تھے جو پشاور میں ملازمت کے غرض سے شفٹ ہوئے تھے اور ہمیشہ اسی مسجد میں جمعے کے نماز کے لیے جاتے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ بھی خودکش حملہ آور کی زد میں آگئے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج سے دیکھا جاسکتا ہے کہ خودکش حملہ آور ایک نوجوان تھا جس نے سیاہ لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے خودکش حملہ آور کے سہولت کار گرفتار کر لیے ہیں اور جلد اس نیٹ ورک کے بارے میں میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہ کریں گے لیکن کئی روز گزر جانے کے باوجود ایسا نہیں کیا ہے۔

اسلام آباد میں پیر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کا سراغ لگایاگیا ہے اور بعض غیرملکی قوتیں پاکستان کو غیرمستحکم کرنا چاہتی ہیں۔

35۔ ڈاکٹر اسد بنگش

Doctor Asad Bangash.jpg

ڈاکٹر اسد بنگش کا تعلق پاڑا چنار سے تھا اور انہوں نے پشاور کے سرحد یونیورسٹی سے فزیکل تھیراپی میں ڈگری حاصل کی تھی جبکہ انٹر کی تعلیم گورنمنٹ ڈگری کالج پاڑا چنار سے حاصل کی تھی۔ ڈاکٹر اسد دھماکے کے کم عمر متاثرین میں شامل ہیں۔

36۔ عقیق حسین

عقیق حسین کا تعلق پاڑا چنار سے تھا اور دھماکے میں شدید زخمی تھے اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ عقیق حسین کے کم سن صاحبزادے فہیم عباس بھی دھماکے کی زد میں آئے تھے اور جان سے گئے تھے۔ پیر کو فہیم عباس کے والد بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے۔

پشاور ہدف پر

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پشاور کے اس بازار کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس سے پہلے بھی اسی بازار کے احاطے میں مختلف دھماکے ہوئے جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 

اسی طرح ستمبر 2013 میں بھی اسی بازار میں دھماکہ ہوا تھا جس کے نیتجے میں 38 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پولیس کے مطابق اس وقت دھماکے میں بارود سے بھری گاڑی کا استعمال کیا گیا تھا۔ 

اسی قصہ خوانی بازار میں 2012 میں بھی ایک خودکش دھماکہ ہوا تھا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور اس وقت کے صوبائی سینیئر وزیر بشیر آحمد بلور بھی ہلاک ہوگئے تھے۔

جب وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی اتحادی حکومت تھی اور دہشت گردی کے واقعات عروج پر تھے، تو اس وقت 2008 میں اسی کوچہ رسالدار میں دھماکہ ہوا تھا جس کے نیتجے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

’دہشت گردی برداشت نہیں ہوگی‘

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت دہشت گردوں کو برداشت نہیں کرے گی اور ان عناصر کو مثال بنانے کے لیے ان کے خلاف تیز عدالتی کارروائی کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں قومی لائحہ عمل کے بارے میں پیر کو ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کے گھناؤنے عزائم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ قوم دہشت گردی کے ناسور کو شکست دینے کے لیے متحد ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام کو معلوم ہے کہ بعض عناصر فرقہ پرستی اور نفرت انگیز بیانات کے ذریعے بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاہم ایسے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

ایپکس کمیٹی نے پشاور حملے کی شدید مذمت کی تھی۔ کمیٹی نے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کے کردار کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ دہشت گردی سے نمٹنے کو مربوط بنایا جائے اور انسداد دہشت گردی کے اداروں کی استعداد کار کو بہتر کیا جاسکے۔

کمیٹی نے کہا کہ صوبوں کو جدید فورینزک لیبارٹریز قائم کرنے اور سائنسی بنیادوں پر موثر تحقیقات کرنے کے لیے زیادہ وسائل مختص کرنے چاہیں۔ کمیٹی نے عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

خیبرپختونخواپشاورپاکستانبم دھماکہخودکش دھماکہ انڈپینڈنٹ اردو نے دھماکے میں بعض جان سے جانے والوں کے لواحقین سے بات کی اور ان کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔اظہار اللہمنگل, مارچ 8, 2022 - 10:45Main image: 

<p>(تصاویر: لواحقین)</p>

پاکستانtype: newsrelated nodes: پشاور مسجد دھماکہ: ’والد سمیت خاندان کے پانچ افراد کھو چکا ہوں‘پشاور: کوچہ رسالدار کی مسجد کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟SEO Title: پشاور مسجد دھماکہ: 63 زندگیاں، 63 کہانیاںcopyright: Display mode: meta header middle

Most Read

2024-09-21 17:09:54