Breaking News >> News >> Independent Urdu


مجید بریگیڈ کیسے بنی، فدائین کون ہیں؟


Link [2022-04-27 09:18:30]



 صوبہ بلوچستان سمیت پاکستان کےدیگر شہروں میں چینی باشندوں پر حملوں میں مجید بریگیڈ نامی ایک گروہ کا نام سامنے آرہا ہے اور اسی گروہ نے منگل کو کراچی میں چینی باشندوں کی وین پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اس حملے میں نئی بات خود کش حملہ آور کی جنس ہے۔ اس حملے کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر غیر قانونی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی مجید بریگیڈ کا دعوی سامنے آیا ہے کہ یہ ان کی خاتون فدائی شاری بلوچ عرف برمش نے کیا ہے۔

پاکستان کے دیگر شہروں اور بلوچستان میں اس وقت چینی باشندوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

ان منصوبوں میں سی پیک کے تحت مختلف مںصوبے اور بلوچستان کے ضلع چاغی میں سیندک کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔

مجید بریگیڈ کیا ہے؟

یہ 17 مارچ 2010 کا واقعہ ہے کہ نامہ نگار کے گھر سےآدھے گھنٹے کے فاصلے پر کلی شاہوزئی کے قریب بروری روڈ پر رات کو فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں جن کی آوازیں قریب رہنے والے لوگ تمام رات سنتے رہے۔ جبکہ اس روڈ پر فورسز کی بھاری نفری بھی دکھائی دی۔

صبح سکیورٹی فورسز نے دعوی کیا گیا کہ انہوں نے کالعدم بی ایل اے کے ایک اہم رکن مجید کو فائرنگ کے تبالے میں ہلاک کردیا ہے جس کی تصویر بھی شائع ہوئی جس میں لاش کے سینے پر کلاشنکوف رکھی ہوئی تھی۔

یہ مجید جونیئر تھا۔ اسی روز  یعنی 17مارچ 2010 کو ذرائع بلاغ میں ایک خبر جاری ہوئی جس میں اسلم بلوچ نے بی ایل اے کے نئے دھڑے مجید بریگیڈ کا اعلان کیا تھا جس کو مجید جونیئر کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔

مجید نام کے ایک اور نوجوان نے 2 اگست 1974 کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر اس وقت حملہ کرنے کی کوشش کی جب وہ ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔

اس نوجوان کے پاس دیسی ساختہ بم تھا جو بھٹو تک پہنچنے سے پہلے پھٹ گیا تھا۔ یہ نوجوان مجید سینیئر تھا جس کا چھوٹا بھائی 2010 میں کوئٹہ میں مارا گیا تھا۔

اس کے بعد تنظٰیم کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا اور پھر 30 دسمبر 2011 کو کوئٹہ کے علاقے ارباب کرم خان روڈ پر واقع ایک گھر پر حملہ ہوا جس کے بارے میں اگلے روز خبریں شائع ہوئیں کہ یہ خود کش حملہ تھا۔

یہ حملہ انتہائی شدید تھا اور دو کلو میٹر سے زیادہ علاقے میں اس کی آواز اور شدت کے اثرات محسوس کیے گئے تھے۔

اس حملے کے بعد علاقہ مکینوں نے بتایا تھا کہ ان کے گھر میں کوئی بھی شیشے یا کانچ کی چیز ثابت نہیں رہی۔

یہ گھر سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل تھا جسے حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں وہ خود تو محفوظ رہے ان کے کئی ساتھی اس میں مارے گئے تھے۔

شفیق مینگل پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ خضدار اور وڈھ کے علاقے میں ڈیتھ سکواڈ چلاتے تھے جو لوگوں کے اغوا اور قتل میں ملوث تھی لیکن وہ اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔

اس کے بعد پھر ایک طویل خاموشی رہی اور مجید بریگیڈ کی کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔

شاری بلوچ عرف برمش کی بی ایل اے کی جانب سے دو بچوں کے ساتھ جاری کی جانے والی دو تصاویر میں سے ایک (بی ایل اے)

پھر 11 اگست 2018 کو ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں سیندک پراجیکٹ میں کام کرنے والے چینی انجینئروں کی بس پر حملہ ہوا۔ یہ بھی فدائی حملہ تھا۔

اس حملے کے حوالے سے مجید بریگیڈ کی طرف سے بیان جاری ہوا کہ یہ ان کے فدائی ریحان اسلم نے کیا تھا جو تنظیم کے سربراہ اسلم بلوچ کے صاحبزادے تھے۔

اس حملے کے بعد 23 نومبر 2018 کو کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ ہوا ہے اور اس فدائی حملے کی ذمہ داری بھی اسی گروہ نے قبول کی تھی۔ 

کراچی حملے کے بعد 25 دسمبر 2018 کو کالعدم بی ایل اے کے سربراہ اور مجید بریگیڈ کے خالق اسلم بلوچ اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ ایک خودکش حملے میں مارے گئے تھے۔

اسلم بلوچ کے ہلاکت کے حوالے سے کئی بار دعوے کیے جاتے رہے اور اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی متعدد بار نیوز کانفرنسز میں دعویٰ کرتے رہے کہ اسلم بلوچ کو کارروائی میں مار دیا گیا تھا لیکن بعد میں یہ دعویٰ غلط ثابت ہوتا تھا۔

اسلم بلوچ کے مارے جانےکے بعد بھی مجید بریگیڈ زیر زمین کام کرتا رہا اور اس کا نتیجہ 11 مئی 2019 کو گوادر میں پی سی ہوٹل (پرل کانٹینینٹل ہوٹل) پر حملے کی صورت میں سامنے آیا جو ایک بڑا حملہ تھا اور اس میں ایک محفوظ ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

بی ایل اے مجید بریگیڈ کی طرف سے دعوی کیا گیا تھا کہ ان کے فدائی 24 گھنٹے تک ہوٹل پر قابض رہے جس میں انہوں نے کئی چینی اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔

پھر اس سے اگلے سال 29 جون 2020 کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کراچی پر چار فدائیوں نے حملہ کیا جو بعد میں فورسز کے جوابی کارروائی میں ہلاک ہوگئے تھے۔

دا بلوچستان پوسٹ ویب سائٹ جو بلوچستان میں مزاحمتی تنظیموں کے حملوں کے دعوے اور ان کی دیگر سرگرمیوں کی خبریں شائع کرتا ہے، اس کے مطابق اس وقت مجید بریگیڈ کی کمان حمل ریحان بلوچ کررہے تھے۔

وہ ایک طویل عرصے تک گمنام رہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ بلوچی، براہوی، اردو اور انگریزی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔

اس گروپ کی طرف سے رواں سال فروری کے مہینے میں نوشکی اور پنجگور میں فرنٹیئر کور کے کیمپوں پر حملے کیے گئے۔ یہ حملے جدید اسلحے اور دیگر آلات کے ساتھ کیے گئے تھے۔

مجید بریگیڈ نے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی فدائی کیمپ کے اندر تک چلے گئے تھے لیکن سکیورٹی فوسز کا کہنا تھا کہ انہیں داخل ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔

دھماکے کے بعد پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون سڑک کنارے کھڑی انتظار کر رہی ہیں اور جیسے ہی وین نزدیک آتی ہے تو ایک دھماکہ ہو جاتا ہے (سکرین گریب)

نوشکی میں حملہ آور جلد مارے گئے تاہم پنجگور میں طویل آپریشن کے بعد  فورسز نے حملہ آوروں کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس دوران ٹیلی گرام ایپ اور سوشل میڈیا پرفدائیوں کے آڈیو پیغامات بھی چلتے رہے جس میں وہ کارروائی کے بارے میں اپنے کمانڈر کو صورتحال سے آگاہ کرتے رہے۔

اسلم بلوچ کے بارے میں دا بلوچستان پوسٹ میں ایک شائع مضمون میں بتایا گیا کہ وہ کوئٹہ کے علاقے ٹین ٹاؤن کے رہائشی تھے۔

ان کا تعلق دہوار قبیلے سے تھا۔ وہ نواب خیر بخش مری کے سٹڈی سرکل میں بھی باقاعدہ شرکت کرتے تھے۔

ادھر مجید بریگیڈ کے کمانڈر کی طرف سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔ جس میں ایک شخص جس نے چہرہ ڈھانپا ہواہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ ہمارے حملے ( کراچی میں چینی باشندوں پر) کا واضح پیغام ہے کہ پاکستان اور چین یہاں سےنکل جائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمارے قائد جنرل اسلم بلوچ نےبھی یہی پیغام دیا تھا۔ ہم بھی اسی کو دہراتے ہیں کہ گوادر اورسارا بلوچستان بلوچوں کی ملکیت ہے۔ ’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی سرزمین کی حفاظت کریں۔ ہماری کارروائیاں جاری ہیں۔ ہم اپنے ساحل کی حفاظت کررہے ہیں۔ چین کو کہتے ہیں کہ وہ ہماری منشا کے بغیر یہاں آیا ہے اورہماری دشمنوں کی مدد کررہا ہے۔‘

ویڈیو میں موجود شخص کہہ رہا تھا کہ بلوچ لبریشن آرمی گارنٹی دیتی ہے کہ سی پیک کامنصوبہ یہاں بری طرح ناکام ہوگا۔

دہشتگردی اور عسکریت پسندی کے امور کے تجزیہ کار محمد عامر رانا سمجھتے ہیں کہ چین کے باشندوں پر حالیہ حملے کے بعد پاکستان اور اس کی حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔

عامر رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حالیہ واقعات چیلنجنگ ہیں، جب سی پیک ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہا ہے تو اس وقت ایسے حملے کے انتہائی منفی اثرات مرتب کریں گے۔‘

انہوں نے ایک خاتون کے خود کش حملہ کرنے کے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’یہ خوفناک رجحان ہے۔ دنیا میں بہت سے مقامات پر خواتین ایسے واقعات میں ملوث رہی ہیں اور داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں خواتین کا استعمال کرتی رہی ہیں۔ تاہم پاکستان میں ایسا بہت کم ہوا ہے۔ اگر بی ایل اے نے یہ کیا ہے تو یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔‘

عامر رانا نے کہا کہ حالیہ واقعے کے بعد فورسز پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ جب کہ جو بات چیت کے لیے کوششیں کی جارہی تھیں وہ سلسلہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ نئی حکومت کے لیے بھی یہ چیلنج ہے کہ وہ کس طرح اس سے باہر نکلے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ نئی تکنیک اور طریقہ خطرناک ہے۔ جس سے بہت سے نوجوان بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ جس کے بعد تشدد کے واقعات میں نوجوان بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جو آگے چل کر ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔‘

پاکستانبلوچستاندہشتگردیدہشت گرد تنظیمخود کش حملہکراچیمجید بریگیڈ کا نام ذوالفقار علی بھٹو پر حملہ کرنے والے مجید نامی شخص کے چھوٹے بھائی مجید جونیئر کے نام پر رکھا گیا ہے۔ہزار خان بلوچبدھ, اپریل 27, 2022 - 05:30Main image: 

<p>کراچی میں منگل کو ہونے والے حملے کے بعد مجید بریگیڈ کی جانب سے ویڈیو جاری گئی ہے جس میں ایک نقاب پوش شخص اپنا پیغام دے رہا ہے (تصویر: سکرین گریب)</p>

پاکستانtype: newsSEO Title: مجید بریگیڈ کیسے بنی، فدائین کون ہیں؟copyright: 

Most Read

2024-09-20 08:39:31