Breaking News >> News >> Independent Urdu


پشاور: زوبائیسکل منصوبہ کامیاب ہوا یا ناکام؟


Link [2022-04-19 07:32:42]



پشاور میں ملک کے پہلے سائیکل شیئرنگ منصوبے ’زو بائیسکل‘ کا ایک سال پورا ہونے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ اب تک اس پر مہانہ بنیاد پر خرچ کی جانے والی رقم اس منصوبے سے وصول ہونے والی رقم کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے سرکاری اعداد وشمارکی مدد سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ آیا ایک سال کے عرصے میں یہ منصوبہ سواریوں کا خود پر انحصار بڑھانے میں کامیاب ہوا ہے کہ نہیں۔

زو بائیسکل منصوبے کا انتظام سنبھالنے والا حکومتی ادارہ ٹرانس پشاور اگرچہ پاکستان میں اپنی نوعیت کے پہلے اور منفرد اس منصوبے کو متعارف کروانے کا اعزاز سمیٹتے ہوئے کافی پرامید اور پرجوش رہا ہے تاہم عوامی حلقوں کی جانب سے اس کی ناکامی کی پیشن گوئی ہوئی تھی۔

مارچ 2021 میں سائیکل شیئرنگ پر انڈپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ میں ناقدین کا کہنا تھاکہ شعور کی کمی، غربت، ناخواندگی اور ایسے دیگر عوامل اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اول تو کرائے پر سائیکل لینا دنیا کے اس کونے میں مضحکہ خیز و غیر ضروری سمجھا جائے گا جبکہ دوسری جانب منتظمین کے لیے اس کی حفاظت کرنا بھی ایک مشکل کام ہوگا، اور ہر وقت کبھی سائیکل تو کبھی اس کے سٹیشن پر لگا سامان چوری ہونے کا خدشہ رہے گا۔

تاہم ٹرانس پشاور کے اس وقت کے ترجمان محمد عمیر نے کہا تھا کہ ’ان سائیکلوں میں ٹریکنگ چپس، سائیکل رجسٹریشن نمبر، بایومیٹرک تصدیق، شناختی کارڈ کی تصدیق شدہ کاپی، جیسے اقدامات اس کی حفاظت یقینی بنائیں گے۔‘

Our Top users of Bicycle Sharing System in Peshawar. Significant increase in registration and usage in last two months #bicycles pic.twitter.com/POCFjudCiO

— TransPeshawar (@TransPeshawar) March 13, 2022

اعداد وشمار وزمینی حقائق

زو بائیسکل منصوبے کے لیے پشاور میں 16 سٹیشن پشاور یونیورسٹی اور 16 حیات آباد میں بنائے گئے، جن کے لیے چین سے 360 خصوصی سائیکلیں منگوائی گئیں۔

 ابتدا میں رجسٹریشن فیس 3 ہزار رکھی گئی جب کہ کئی گھنٹوں کے لیے سائیکل استعمال کرنے کا زیادہ سے زیادہ کرایہ 60 روپے رکھا گیا۔

جنوری 2022 میں لوگوں کی عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے رجسٹریشن فیس میں مزید کمی لاتے ہوئےاسے ایک ہزار کردیا گیا اور اسی شرح سے کرایوں میں بھی کمی لائی گئی تاکہ سائیکل شیئرنگ کو کامیاب بنایا جاسکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ایک سال گزرنے کے باوجود صرف 16 سو 50 لوگوں نے ممبرشپ حاصل کی ہے جن میں زیادہ تعداد یونیورسٹی کے طلبہ  کی ہے۔ خصوصاً وہ طلبہ جو ہاسٹلز میں رہتے ہیں جبکہ حیات آباد میں قائم 16 سٹیشن کی صورتحال اس کے برعکس ہے۔

ٹرانس پشاور کی جانب سے ملنے والے اعدادوشمار کے مطابق، 32 سٹیشنز کے لیے شفٹ کے حساب سے 80 سکیورٹی گارڈز بھی مقرر کیے گئے ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ 21 ہزار ہے۔ مزید اخراجات میں سٹیشن کی بجلی کا بل بھی شامل ہے جو ماہانہ پانچ ہزار آتا ہے۔

ٹرانس پشاور کے سابق ترجمان کے مطابق سکیورٹی گارڈز رکھنے کا مقصد سٹیشن کی دیکھ بھال اور سائیکل حاصل کرنے والوں کی رہنمائی ہے۔

TransPeshawar in collaboration with @Alhayyatgroup_ organised Zu Bicycle activitiy to mobilize public/youth regarding this Unprecedented, healthy & environment friendly mode of transport. Public from all walks took part. SACM @SenatorSaif led the drive. @IMMahmoodKhan @infokpgovt pic.twitter.com/CvJA1o5Nq2

— TransPeshawar (@TransPeshawar) February 12, 2022

اگر ہمیں یہ جاننا ہے کہ یہ منصوبہ کامیاب عہا یا ناکام ہوا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس منصوبے کی لاگت، حکومت کی جانب سے عوام کو ملنے والی سبسڈی، ایک سائیکل کے ماہانہ خرچے اور منصوبے کے ماہانہ کُل خرچے کا جائزہ لیا جائے۔

اس ضمن میں حکومت کی جانب سے بجلی کا ماہانہ خرچہ ایک لاکھ 60 ہزار، سکیورٹی گارڈز کی تنخواہوں کا کُل ماہانہ خرچہ 16 لاکھ 80 ہزار اور اس منصوبے کا مہینے کا کُل خرچہ 18 لاکھ 40 ہزار روپے ہے۔

ان اعداد وشمار کی روشنی میں ایک سائیکل پر حکومت کا مہینے میں 5 ہزار 111 روپے خرچہ آتا ہے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کُل 1650 ممبرز ’ڈیلی یوزرز‘ نہیں ہیں، لہذا ہر ماہ ریگولر سائیکل شیئرنگ کرنے والوں کی تعداد صرف چند سو رہ جاتی ہے۔

18 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ خرچے سے متعلق جب انڈپینڈنٹ اردو نے ایک شہری کی رائے مانگی تو انہوں نے کہا کہ ’اس حساب سے حکومت اگر 20 ہزار کی ایک سائیکل خریدتی تو ہر ماہ 100 سائیکلیں وہ مفت دے سکتی ہے۔ نہ مینٹیننس اور نہ ہی دوسرے جھنجھٹ پالنے پڑیں گے۔ کیوں کہ حکومت تو ویسے بھی اس منصوبے سے کچھ کماتی نہیں ہے۔‘

اس نکتے پر آکر یہ بتانا مشکل ہوگا کہ چند سو لوگوں کی خاطر ماہانہ 18 لاکھ 40 ہزار کی رقم خرچ کرنا اس منصوبے کی ناکامی ہے یا کامیابی مگر اس بارے میں کچھ نہیں جا سکتا کہ وقت گرنے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کی افادیت بڑھے گی یا کم ہوگی۔

پاکستانپشاورسائیکل18 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ خرچے سے متعلق جب انڈپینڈنٹ اردو نے ایک شہری کی رائے مانگی تو انہوں نے کہا کہ ’اس حساب سے حکومت اگر 20 ہزار کی ایک سائیکل خریدتی تو ہر ماہ 100 سائیکلیں وہ مفت دے سکتی ہے۔انیلا خالدمنگل, اپریل 19, 2022 - 06:45Main image: 

<p>ٹرانس پشاور کے تحت سائیکل شیئرنگ منصوبے ’زو بائیسائیکل‘ کا سٹیشن جہاں کئی سائیکلیں کھڑی ہیں (تصویر: انیلا خالد)</p>

پاکستانtype: newslabel: فیکٹ چیکrelated nodes: سائیکل کے ٹائروں کو پنکچر لگانے والی شبنم عرف شبو داداموٹر سائیکل پر تھر کی خواتین کو تعلیم دیتی دو بہنوں کی کہانی ایف اے پاس خاتون کا چائنیز ڈشز کا موٹر سائیکل ڈھابہSEO Title: پشاور: زوبائیسکل منصوبہ کامیاب ہوا یا ناکام؟copyright: 

Most Read

2024-09-20 12:58:12