اسلام آباد میں اتوار کو عالمی یومِ محنت کش خواتین کے موقعے پر ایک جلسے میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شرکت کی۔
ایف نائن پارک میں جلسے میں جڑواں شہروں کے رہائشیوں، نوجوان طلبہ، کچی آبادی کے باسیوں، گھریلو ملازمین، وکلا، اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرزاور دیگر پیشہ ور افراد نے بھرپور شرکت کی۔
جلسے کے منتظمین کے جاری بیان کے مطابق مختلف مقررین نے خواتین کو روزمرہ کی زندگی میں معاشرتی ڈھانچے کے نقائص کے باعث پیش آنے والی ناانصافیوں پر روشنی ڈالی۔
’صحت، تعلیم اور روزگار سب کے لیے‘ کے پینل میں شامل کچی آبادی کی رہائشی سیما بی بی نے شہر کی اشرافیہ کے ہاتھوں ہونے والے طبقاتی امتیاز کے بارے میں بات کی۔
انھوں نے کہا، ’وہ ہمارے لیے پانی پینے کے لیے الگ گلاس رکھتے ہیں، لیکن ہم ان کے گھروں کو صاف کرتے ہیں۔ تو کیا ہم گندے ہیں؟
’میری آبادی کی خواتین سارا سارا دن مزدوری کرتی ہیں لیکن پھر بھی اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کے لیے کافی کمائی نہیں کر پاتیں۔
’ہم انتہائی سنگین و ناسازگار حالات والی جگہوں پر روزی کماتے ہیں، جہاں ہمارے مالک روزانہ کی بنیاد پر ہمیں ہراساں کرتے ہیں، ہم سے توہین آمیز لہجہ اور امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔‘
’گھریلو ملازمین کے حقوق کے لیے کسی قسم کا تحفظ نہیں اور انہیں حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ شہر کے متوسط اور اعلیٰ طبقے کے رہائشیوں کی طرف سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
ایچ نائن رمشا کالونی کی رہائشی اور سماجی کارکن تیمر نے شہروں میں بے دخلی اور کم قیمت گھروں کے مسئلے پر بات کی۔
’جب مشتعل ہجوم نے ہماری مسیحی برادری پر حملہ کیا تو سی ڈی اے نے ہمیں یہاں آباد ہونے کو کہا۔ اب جب کہ شہر ’ترقی کے مراحل میں ہے‘ اور ایک ٹینتھ ایونیو کے نام پہ ایک نئی سڑک کو تعمیر کیا جا رہا ہے تو ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے گھر گرا دیے جائیں گے۔‘
عصمت شاہجہان، صدر ڈبلیو ڈی ایف نے فیمینزم کو عوام کے سامنے بطور سیاسی ایجنڈا لے جانے کی اہم ضرورت کے بارے میں بات کی۔
انھوں نے کہا، ’ہم پوچھتے ہیں کہ یہ ترقی آخر کس کی خدمت کرتی ہے؟ ہماری فیمینزم، ہر قسم کے جبر کے خلاف کھڑی ہے۔ ہم عوام نواز سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور ان تمام جابرانہ ڈھانچوں کے خلاف کھڑے ہیں جو لوگوں کو محکوم بناتے ہیں۔
’ہماری جدوجہد ایک مساوی، انصاف پسند اور پرامن معاشرے کے قیام کے لیے ہے جس میں کسی محنت کش کا استحصال نہ ہو۔ کسی عورت پر تشدد نا کیا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا، پاکستان کے عوام طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہیں، خاص طور پر حالیہ دنوں میں، ناکام معیشت، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور موجودہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے شدید پریشان ہیں۔
’ہمیں ایک ایسی ریاست کی ضرورت ہے جو ہمارے لوگوں اور ان کی ضروریات کو پورا کرے۔‘
جلسے میں ایک تھیٹر بھی پیش کیا گیا، جس میں ایک مثالی دنیا کی تصویر کشی کی گئی جہاں لوگ اجتماعی طور پر مساوات کے اصولوں پر مبنی جبر سے پاک دنیا کی تعمیر کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
خواجہ سرا کمیونٹی کی رہنما اور نمائندہ نایاب علی نے پاکستان میں خواجہ سراؤں کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، ’ہماری کمیونٹی انتہائی مشکل حالات میں رہتی ہے۔ ہمیں رہائش، تعلیم، روزگار اور بڑھاپے میں سہارے جیسے وسائل تک رسائی نہیں ہے۔
’بوڑھے خواجہ سراؤں کو کوئی سماجی تحفظ حاصل نہیں ہے اور بہت سی نوجوان خواجہ سراؤں کو رازانہ کی بنیاد پہ ہراساں کیا جاتا ہے اور اکثر بے رحمی سے مار دیا جاتا ہے۔ یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ہمارے باوقار زندگی گزارنے کے حق کو یقینی بنائے۔‘
مزید پڑھاس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خوش بخت نے کہا کہ ہم نے اس تحریک کو بنایا اور خواتین کے مسائل کو مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے پر لایا۔
’ہم خواتین مخالف پالیسیوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا جوابدہ بنائیں گے اگر وہ ملک کی خواتین کو مایوس کرتی رہیں۔‘
پروگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن کی فریال رشید نے یونیورسٹی کیمپس میں خواتین طالبات کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا، ’موجودہ حکومت کی تعلیمی پالیسیوں نے ملک بھر کے طلبہ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ فیسوں میں اضافہ، لڑکیوں کے ہاسٹل کی عدم دستیابی اور کیمپس میں ہراسانی کے سنگین مسائل ہیں جو خواتین کو اعلیٰ تعلیم کے حصول سے روکتے ہیں۔‘
جلسے میں موجود شرکا نے پدرشاہانہ نظام، سرمایہ داری، نو لبرل ازم سے آزادی کی جدوجہد جاری رکھنے اور سوشلسٹ، فیمنسٹ، اور مساوی بنیادوں پر معاشرے کو تشکیل دینے کا عزم کیا۔
خواتینعورت مارچجلسے میں موجود شرکا نے پدرشاہانہ نظام، سرمایہ داری، نو لبرل ازم سے آزادی کی جدوجہد جاری رکھنے اور سوشلسٹ، فیمنسٹ، اور مساوی بنیادوں پر معاشرے کو تشکیل دینے کا عزم کیا۔انڈپینڈنٹ اردواتوار, مارچ 6, 2022 - 22:15Main image:<p>جلسے میں جڑواں شہروں کے رہائشیوں، نوجوان طلبہ، کچی آبادی کے باسیوں، گھریلو ملازمین، وکلا، اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرزاور دیگر پیشہ ور افراد نے بھرپور شرکت کی (تصویر بشکریہ منتظمین)</p>
خواتینtype: newsrelated nodes: ’معزز صارف کو عورت مارچ کا ترانہ بنا لیں‘اس بار عورت مارچ کا بنیادی نکتہ کیا ہے؟SEO Title: اسلام آباد میں عورت آزادی جلسہ:خواتین کے ساتھ ناانصافیوں کے خاتمے کا مطالبہcopyright:2024-11-11 06:32:49