Breaking News >> News >> Independent Urdu


قیام امن اور جنگ بندی کے لیے مذاکرات پر تیار ہیں: یوکرینی صدر


Link [2022-02-26 11:20:07]



روس کے خبر رساں ادارے تاس کے مطابق یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے روسی صدر ولادی میر پوتن کی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور وہ امن اور جنگ بندی پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

خبر رساں ادارے نے زیلنسکی کے پریس سیکریٹری سرگے نیکوفوروف کے حوالے سے دعوی کیا ہے انہوں نے کہا کہ ’مجھے ان الزامات کی تردید کرنی ہے کہ ہم نے بات چیت سے انکار کر دیا ہے۔‘

فیس بک پر جاری اس بیان میں انہوں نے کہا کہ یوکرین ہمیشہ امن اور جنگ بندی پر بات چیت کے لیے تیار رہا ہے اور ہے۔ ’یہ ہمارا مستقل موقف ہے۔‘

انہوں نے اپنے فیس بک اکاونٹ پر مزید لکھا کہ انہوں نے روسی صدر کی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔

نیکوفوروف کے مطابق مذاکرات کی جگہ اور وقت کے بارے میں مشاورت جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جتنی جلدی بات چیت شروع ہوگی، معمولات زندگی کی بحالی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

روسی صدارتی پریس سیکریٹری دمتری پیسکوف نے اس سے قبل کہا تھا کہ پیوتن یوکرین کے ساتھ مذاکرات کے لیے منسک میں ایک وفد بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔

نیکوفوروف کا بیان یوکرین کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے ویب سائٹ پر بھی جاری کیا ہے۔

فیس بک کی روس کے سرکاری میڈیا پر اشتہارات چلانے اور مونیٹائزنگ پر پابندی

یوکرین پر ماسکو کی یلغار کے بعد امریکی ٹیک کمپنی میٹا نے روس کے سرکاری میڈیا کی اپنے سوشل پلیٹ فارم فیس بک پر پیسہ کمانے کی صلاحیت کو محدود کر دیا۔

فیس بک کی سیکورٹی پالیسی کے سربراہ ناتھانیئل گلیشر نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا: ’اب ہم روس کے سرکاری میڈیا کو دنیا میں کہیں بھی اپنے پلیٹ فارم پر اشتہارات چلانے یا مونیٹائزنگ پر پابندی لگا رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ فیس بک ’روس کے دیگر ریاستی میڈیا پر لیبل لگانا بھی جاری رکھے گا۔‘

فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے جمعے کو کہا تھا کہ روس کی جانب سے ان کے پلیٹ فارمز پر فیکٹ چیکرز اور مواد کے وارننگ لیبلز کا استعمال روکنے کے حکام کے حکم کو مسترد کرنے کے بعد وہ پابندیوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔

امریکہ کا روسی صدر اور وزیر خارجہ پر پابندیوں کا اعلان

روسی صدر ولادی میر پوتن اور وزیر خارجہ سرگے لاوروف کریملن میں 3 جولائی 2019 کو منعقدہ ایک تقریب میں شریک ہیں (تصویر: اے ایف پی فائل)

یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکی حکومت نے بھی یورپی ممالک کی طرح روسی صدر ولادی میر پوتن اور وزیر خارجہ سرگئے لاوروف پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ کی جانب سے کسی سربراہ مملکت پر پابندیوں کا یہ غیر معمولی اقدام ہے جس کا مقصد یوکرین پر حملے کو روکنے کے لیے ماسکو پر دباؤ بڑھانا ہے۔

روس کی یوکرین پر چڑھائی دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ میں ایک ریاست کی جانب سے دوسری ریاست کے خلاف زمینی، سمندری اور فضائی راستے سے حملوں کی یہ سب سے بڑی کارروائی ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ نے جمعہ کی شب ایک بیان میں پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ’صدر پوتن اور وزیر خارجہ لاوروف ایک جمہوری اور خود مختار ریاست یوکرین پر روس کے بلا اشتعال اور غیر قانونی حملوں کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’کسی سربراہ مملکت کے خلاف یہ پابندیاں ’انتہائی غیر معمولی ہیں اور پوتن کو ایک ایسی شارٹ لسٹ میں ڈال دیا گیا جس میں شمالی کوریا، شام اور بیلاروس کے رہنما شامل ہیں۔ ان کے خلاف مزید کارروائیاں ہو سکتی ہیں۔‘

وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر جو بائیڈن نے جمعے کو یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین سے فون پر بات کرنے کے بعد پوتن، لاوروف اور دیگر حکام پر پابندیوں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ نے کہا کہ رواں ہفتے عائد کردہ دیگر پابندیوں کے اقدامات نے روسی بینکوں اور روسی مالیاتی ںظام کو نشانہ بنایا ہے، روس کو اہم ٹیکنالوجیز تک رسائی سے روک دیا گیا ہے اور سرمایہ اکٹھا کرنے کی ماسکو کی صلاحیت کو محدود کردیا گیا ہے۔

قبل ازیں جمعے ہی کو یورپی یونین کے ارکان اور برطانیہ نے پوتن اور لاوروف کے یورپ میں اثاثوں کو منجمد کرنے پر اتفاق کیا کیوں کہ یوکرین کے صدر یورپ سے اپنے ملک پر روس کے حملے کے تناظر میں کریملن کے خلاف تیز اور زیادہ سخت پابندیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

روسی نیوز ایجنسی آر آئی اے کے مطابق روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ صدر پوتن اور وزیر خارجہ لاوروف کے خلاف پابندیاں خارجہ پالیسی کے حوالے سے مغرب کی ’کمزوری‘ کی عکاسی کرتی ہیں۔

اوباما انتظامیہ کے دور اقتدار میں امریکی محکمہ خارجہ میں روس پر پابندیوں پر کام کرنے والے اٹلانٹک کونسل کے فیلو ایڈورڈ فش مین نے کہا کہ اگرچہ پوتن پر پابندیاں بڑی حد تک علامتی ہیں لیکن روسی رہنما کو پابندیوں کا نشانہ بنانا امریکہ اور اس کے شراکت داروں کے لیے ایک مناسب قدم تھا۔

فش مین نے کہا: ’اس سے یقینی طور پر یوکرین کے ساتھ یکجہتی کا ایک بہت مضبوط پیغام بھیجا گیا ہے جو اس وقت آگ کی زد میں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محکمہ خزانہ نے مزید کہا کہ امریکی حکومت نے دو دیگر اعلیٰ روسی حکام وزیر دفاع سرگئے شوئیگو اور چیف آف جنرل سٹاف والیری گیراسیموف کے خلاف بھی یوکرین پر روس کے حملے کے لیے پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ محکمہ خزانہ روس میں براہ راست سرمایہ کاری فنڈ پر بھی پابندیاں عائد کرے گا۔

وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا کہ روس کے براہ راست سرمایہ کاری فنڈ کے خلاف کارروائی آنے والے دنوں میں کی جائے گی۔

امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم اپنے بین الاقوامی اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کھڑے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ روس یوکرین پر مزید حملوں کی سخت اقتصادی اور سفارتی قیمت ادا کرے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم عالمی سطح پر روس کے خطرناک رویے کے لیے اس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

امریکی محکمہ خزانہ نے کہا ہے کہ جس نے پہلے ہی روسی سلامتی کونسل کے 11 ممبران کو نامزد کیا ہے کہ وہ روسی اشرافیہ کو یوکرین کے خلاف مزید جارحیت، پوتن کو بااختیار بنانے یا روس کی کرپٹ حکومت میں حصہ لینے کے لیے ان کو نشانہ بنانا جاری رکھے گا۔

امریکہ کے سیکریٹری خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ امریکہ روسی رہنماؤں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔

In coordination with our Allies and partners, we are continuing our unprecedented response to Russia’s invasion of Ukraine by imposing strong sanctions on Russian President Putin, Foreign Minister Lavrov, Defense Minister Shoigu, and First Deputy Defense Minister Gerasimov.

— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) February 26, 2022

دوسری جانب صدر پوتن نے جمعے کو یوکرین کی فوجی قیادت پر زور دیا کہ وہ اپنے سیاسی رہنماؤں کا تختہ الٹ دے اور امن کے لیے بات چیت کرے۔

کیئف میں حکام نے شہریوں سے کہا کہ وہ دارالحکومت کو روسی حملے سے بچانے میں مدد کے لیے ہتھیار اٹھائیں۔

پوتن کو نشانہ بنانے والی پابندیاں یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت پر واشنگٹن کی طرف سے تازہ ترین تعزیری کارروائی ہیں۔

امریکہ نے رواں ہفتے روس اور جرمنی کو ملانے والی 11 ارب ڈالر کی زیر سمندر گیس پائپ لائن کی تعمیر میں حصہ لینے والے روسی بینکوں، اشرافیہ کے ارکان اور کمپنی پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ یوکرین پر حملے نے واشنگٹن اور دیگر ممالک کے ساتھ ماسکو کے تعلقات کو ’بنیادی طور پر تبدیل‘ کر دیا ہے۔

پرائس نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی حکام اپنے روسی ہم منصبوں کے ساتھ اہم قومی سلامتی کے معاملات پر بات چیت جاری رکھیں گے جس میں ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کی واپسی کے لیے بات چیت بھی شامل ہے۔

امریکہروسیوکرینولادی میر پوتنجنگیوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی کے پریس سیکریٹری سرگے نیکوفوروف کے مطابق ان مذاکرات کی جگہ اور وقت کے بارے میں مشاورت جاری ہے۔انڈپینڈنٹ اردوہفتہ, فروری 26, 2022 - 12:00Main image: 

<p>یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی برطانوی وزیر اعظم کے ساتھ میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران ملاقات کر رہے ہیں جو 18 فروری 2022 کو منعقد ہوئی تھی (تصویر: اے ایف پی)</p>

امریکہjw id: lWuxChPptype: videolabel: لائیو اپ ڈیٹسrelated nodes: یوکرین میں میری دکان پر راکٹ گرا: پاکستانی شہرییوکرین پر روسی حملہ: کیا یہ کرپٹو میں پیسہ لگانے کا بہترین وقت ہے؟وزیر اعظم عمران خان کی جنگ زدہ ماحول میں روسی صدر سے ملاقاتSEO Title: قیام امن اور جنگ بندی کے لیے مذاکرات پر تیار ہیں: یوکرینی صدرcopyright: Translator name: عبدالقیوم شاہد

Most Read

2024-09-21 20:04:30