Breaking News >> News >> Independent Urdu


جسٹس فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس: ’ججوں سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں‘


Link [2022-01-29 15:36:22]



پاکستان کی سپریم کورٹ نے ہفتے کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں جبکہ کسی بھی شخص، بشمول اس عدالت کے جج، کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ 

تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ٹیکس حکام ایسٹ ریکوری یونٹ کے سابق چیئرمین شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کے کہنے پر جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسی کے ٹیکس گوشواروں کی معلومات کو خفیہ رکھنے میں ناکام رہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان بھی عدالت کے واضح احکامات کے باوجود ان افراد کو عہدوں پر بحال رکھ کر غیر قانونی اقدام میں ملوث ہوئے۔   

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا تھا، جس کے فیصلے پر انہوں نے اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں ہی نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی۔ 

جسٹس فائز عیسیٰ کی نظر ثانی کی درخواست پر سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے گذشتہ سال اپریل میں مختصر فیصلہ سنایا تھا، تاہم اس کی تفصیلی فیصلہ نو مہینے اور دو دن بعد ہفتے کو جاری کیا گیا۔ 

سپیریم کورٹ نے سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی کی درخواست اکثریت سے منظور کی تھی۔ 

تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ ایسی کوئی ہدایت نہیں دے سکتی جو جوڈیشل کونسل کو کسی خاص طریقے سے آگے بڑھنے کا اشارہ دے یا اسے کسی بھی طریقے سے آگے بڑھنے سے باز رکھے، اور ایسا عدالتی مداخلت کے مترادف ہو گا۔ 

فیصلے کے مطابق ٹیکس حکام کی رپورٹ پر غور کرنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو اس عدالت کی جانب سے دی گئی ہدایات ’کونسل کے سامنے کی کارروائی‘ میں عدالتی مداخلت کے مترادف ہیں، اور اس طرح عدالتی مداخلت کے خلاف کونسل کی کارروائی کی خود مختاری اور بالادستی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔  

’تاہم، کونسل اپنے طور پر کسی بھی ذریعے سے موصول ہونے والی معلومات پر غور کرنے یا اس پر غور کرنے سے انکار کرنے کی مجاز ہے، خواہ وہ ٹیکس حکام کی رپورٹ ہی ہو۔‘ 

تحریری فیصلے کے مطابق ٹیکس حکام کو درخواست گزار جج کی شریک حیات اور بچوں کے معاملات کی انکوائری کرنے کے لیے کہنا انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعات کی خلاف ورزی ہے۔

تاہم صدر مملکت اور سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی بھی جج کے خلاف کارروائی کا حق حاصل ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیکس حکام درخواست گزار جج یا اعلیٰ عدلیہ کے کسی دوسرے حاضر یا سبکدوش جج، ان کی شریک حیات یا بچوں کے خلاف خوف یا ڈر کے بغیر کارروائی کے مجاز ہیں۔  

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے مطابق انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کا سیکشن 216 ٹیکس فائلر کی معلومات کی رازداری کا حکم دیتا ہے اور اس کی خلاف ورزی مجرم کو تعزیری نتائج سے دوچار کرتی ہے۔ 

’موجودہ کیس میں اس طرح کے نتائج غیر قانونی ہدایات دینے والوں کی طرف متوجہ ہیں، یعنی چیئرمین اے آر یو، بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کی رضامندی سے؛ آرڈیننس کے سیکشن 216 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی ہدایات پر عمل درآمد کرنے والے ٹیکس اہلکار؛ اور آخرکار، قابل وزیر اعظم، جنہوں نے اس عدالت کی طرف سے نامزد مجرموں کے غلط کاموں کے واضح اور متفقہ طور پر پائے جانے کے باوجود، انہیں اختیارات کے عہدوں پر برقرار رکھا، اس طرح خود کو مذکورہ خلاف ورزی کے کمیشن میں ملوث ہونے کا کھلم کھلا انکشاف کیا۔‘ 

نظر ثانی کی درخواست سننے والے بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین احمد، اور جسٹس امین الدین خان شامل تھے۔ 

سپریم کورٹجسٹس قاضی فائز عیسیسپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس عدالت کے جج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں جبکہ کسی بھی شخص، بشمول اس عدالت کے جج، کو قانونی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔عبداللہ جانہفتہ, جنوری 29, 2022 - 16:15Main image: 

<p>29 جنوری،&nbsp; 2022 کی اس تصویر میں ایک سائیکل سوار اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)</p>

پاکستانtype: newsrelated nodes: صدر جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس پر معافی مانگ لیں تو اچھا ہے: سرینا عیسیٰجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ’ نیا پاکستان‘ملک کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے: قاضی فائز عیسیٰSEO Title: جسٹس فائز نظر ثانی کیس: ’جج سمیت کسی کو قانونی حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا‘copyright: 

Most Read

2024-09-22 13:27:22